ان کا اسم گرامی جندب بن جنادہ ہے مگر اپنی کنیت کے ساتھ زیادہ مشہور ہیں۔ بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں اور یہ اپنے زہد وقناعت اورتقوی وعبادت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں ۔
یہ ابتداءِ اسلام ہی میں مسلمان ہوگئے تھے یہاں تک کہ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ اسلام لانے میں ان کا پانچواں نمبر ہے ۔
انہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا پھر اپنے وطن قبیلۂ بنی غفار میں چلے گئے پھر جنگ خندق کے بعد ہجر ت کر کے مدینہ منورہ پہنچےاورحضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے بعد کچھ دنوں کے لیے ملک شام چلے گئے پھر وہاں سے لوٹ کر مدینہ منورہ آئے اور مدینہ منورہ سے چند میل دورمقام”ربذہ”میں سکونت اختیارکرلی۔
بہت سے صحابہ اورتابعین علم حدیث میں آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں بمقام ربذہ ۳ ھ میں آپ نے وفات پائی۔
ان کے بارے میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ارشادگرامی ہے کہ جس شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کا شوق ہووہ ابوذر کا دیدارکرلے۔
روایت میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو ان کی بیوی صا حبہ رونے لگیں ۔ آپ نے پوچھا: تم روتی کیوں ہو؟
بیوی نے جواب دیا: میں کیوں نہ روؤں جنگل میں آپ وصال فرما رہے ہیں اورہمارے پاس نہ کفن ہے نہ کوئی آدمی مجھے یہ فکر ہے کہ اس جنگل میں آپ کی تجہیز وتکفین کا میں کہاں سے اور کیسے انتظام کروں گی ؟
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: تم مت روؤ اورنہ کوئی فکر کرو۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے صحابہ میں سے ایک شخص جنگل میں وصال فرمائے گا اوراس کے جنازہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت حاضرہوجائے گی ۔
مجھے یقین ہے کہ وہ جنگل میں وصال کرنے والا صحابی میں ہی ہوں اس لئے تم فکر نہ کرو اور انتظار کرو ممکن ہے کوئی جماعت آرہی ہو ۔ یہ کہہ کر حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ وصال فرماگئے۔
ان کی بیوی کا بیان ہے کہ وصال کے تھوڑی ہی دیر کے بعد اچانک چند سوار آگئے اورایک نوجوان نے اپنی گٹھڑی میں سے ایک نیا کفن نکالا اور آپ اسی کفن میں مدفون ہوئے اورسواروں کی اس جماعت نے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ تجہیز وتکفین اورنماز جنازہ ودفن کا انتظام کیا ۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ جب حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوئے تو روزانہ مسجد حرام میں جاکر اپنے اسلام کا اعلان کرتے رہتے اورکفار مکہ ان کو اس قدر مارتے تھے کہ یہ مرنے کے قریب ہوجاتے تھے
اورحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو لوگوں سے یہ کہہ کر بچایا کرتے تھے کہ یہ قبیلہ غفار کے آدمی ہیں جو تم قریشیوں کی شامی تجارت کی شاہراہ پر واقع ہے ۔ لہٰذا ان کو ایذا مت دو ورنہ تمہاری شامی تجارت کا راستہ بند ہوجائے گا۔
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ پندرہ دن اورپندرہ رات اسی حرم کعبہ میں روزانہ اپنے اسلام کا اعلان کرتے اورکفار سے مار کھاتے رہے
اوران پندرہ دنوں اورراتوں میں زمزم شریف کے پانی کے سوا ان کو گیہوں یا چاول کا ایک دانہ یا ذرہ برابر کوئی دوسری غذا میسر نہیں ہوئی مگریہ صرف زمز م شریف پی کر زندہ رہے اور پہلے سے زیادہ تندرست اورفربہ ہوگئے ۔
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔۔۔ آمین ۔
( کرامات صحابہ ، ص؛ 239 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )
( منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)