سوال:کیا فرماتے ہیں علماء ِدین و مفتیانِ شرعِ متین کَثَّرَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن اِس مسئلے میں کہ زید نے قربانی کی نیّت سے گائے خریدی جب گھر لایا تو لوگوں نے کہا کہ اسکے پیٹ میں بچّہ ہے اسکی قربانی نہیں ہوگی، تو ارشاد فرمایا جائے کیا واقعی ایسا ہے کہ قربانی نہیں ہوگی، زید کو کیا کرنا چاہیے؟
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَالْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورتِ مسؤلہ (یعنی پوچھی گئی صورت)میں زید کی قربانی درست ہے، کیونکہ گائے یا بکری کے پیٹ میں بچہ ہونا قربانی کیلئے مُضِر (یعنی نقصان دہ)نہیں ،بلکہ اگر زید فقیر ہے اور اس نے قربانی کی نیّت سے گائے خریدی تھی تب تو اسکے لئے اسی گائے کی قربانی کرنا واجب ہوگیاجیسا کہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے :’’وَلَوْ ضَلَّتْ اَوْ سُرِقَتْ فَشَرٰی اُخْرٰی فَظَھَرَتْ فَعَلَی الْغَنِیِّ اِحْدَاھُمَا وَعَلَی الْفَقِیْرِ کِلَاھُمَایعنی اگر (قربانی کا جانور)کھو گیا یا چوری ہوگیا اور اس نے دوسرا جانور خرید لیا پھر بعد میں وہ جانور مل گیا تو غنی کو اختیار ہے کہ دونوں میں کسی ایک جانورکو ذبح کرے اور فقیر پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا لازم ہے ۔(کیونکہ فقیر پر وہ جانور خریدنے کی وجہ سے اسی جانور کو ذبح کرنا واجب ہوگیا تھا )
( رد المحتار علی الدر المختارج9ص539دار المعرفہ بیروت)
اسی طرح صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں ’’فقیر نے قربانی کیلئے جانور خریدا،اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہے ‘‘
(بہار شریعت جلد3 ص331 مطبوعہ مکتبۃُ المدینہ)
ہاں ! زیداگر غنی ہے اور اگرچاہے تو اُس کیلئے افضل یہ ہے کہ وہ بچے والی گائے کی قربانی نہ کرے بلکہ اسکے بجائے کسی اور جانور کی قربانی کرلے۔چنانچہ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی وِساطت سے بچے والی گائے یا بکری سے متعلق دو مَدَنی پھول پیش کئے جاتے ہیں :
نمبر ایک: قربانی کیلئے جانور خریدا تھا قربانی کرنے سے پہلے اسکے بچہ پیدا ہوا تو بچے کو بھی ذبح کر ڈالے اور اگر بچے کو بیچ ڈالا تو اسکا ثمن (یعنی حاصل ہونے والی قیمت) صدقہ کردے اور اگر نہ ذبح کیا نہ بیع کیا (یعنی نہ بیچا)اورایامِ نحر(یعنی قربانی کے دن) گزر گئے تو اس کو زندہ صدقہ کردے،اور اگر کچھ نہ کیا اور بچہ اسکے یہاں رہا اور قربانی کا زمانہ آگیا یہ چاہتا ہے کہ اِس سال کی قربانی میں اُسی کو ذبح کردے یہ نہیں کر سکتا اور اگر قربانی اُسی کی کردی تو دوسری قربانی پھر کرے کہ وہ قربانی نہیں ہوئی اور وہ بچہ ذبح کیا ہوا صدقہ کردے بلکہ ذبح سے جو کچھ اُسکی قیمت میں کمی ہوئی اُسے بھی صدقہ کرے ۔
نمبر دو: قربانی کی اور اُسکے پیٹ میں زندہ بچہ ہے تو اسے بھی ذَبح کردیں اور اسے صَرف (یعنی استعمال)میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پھینک دے مُردار ہے ۔
(بہار شریعت جلد3 ص331 مطبوعہ مکتبۃُ المدینہ)
وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ سَلَّمَ