Sat 11th Shawwal 1445AH , 20th Apr 2024AD
Follow us on:

حضر ت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضر ت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ


Categories: Other
Posted on: February 25, 2018 at 3:30 pm
Views: 96

حضر ت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے انصاری ہیں اورمشہور صحابی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد ماجد ہیں ۔ قبیلہ انصار میں یہ اپنے خاندان بنی سلمہ کے سردار اور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بہت ہی جاں نثار صحابی ہیں ۔

جنگ بدر میں بڑی بہادری اورجاں بازی کے ساتھ کفار سے لڑے اور ۳ ھ میں جنگ احد کے دن سب سے پہلے جام شہادت سے سیراب ہوئے ۔

بخاری شریف وغیرہ کی روایت ہے کہ انہوں نے رات میں اپنے فرزند حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر یہ فرمایا: میرے پیارے بیٹے!کل صبح جنگ احد میں سب سے پہلے میں ہی شہادت سے سرفراز ہوں گا اوربیٹا سن لو!رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعد تم سے زیادہ میرا کوئی پیارا نہیں ہے لہٰذا تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ میری آخری وصیت ہے ۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ واقعی صبح کو میدان جنگ میں سب سے پہلے میرے والد حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی شہید ہوئے۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب میرے والدحضرت عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے تو انکا یہ حال تھا کہ کافروں نے ان کے کان اورناک کو کاٹ کر ان کی صورت بگاڑدی تھی۔

میں نے چاہا کہ ان کا چہرہ کھول کر دیکھوں تو میری برادری اورکنبہ قبیلہ والوں نے مجھے اس خیال سے منع کردیا کہ لڑکا اپنے باپ کا یہ حال دیکھ کر رنج وغم سے نڈھال ہو جائے گا۔

اتنے میں میری پھوپھی روتی ہوئی ان کی لاش کے پاس آئیں تو سید عالم حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان پر روؤیا نہ روؤ فرشتوں کی فوج برابر لگاتاران کی لاش پر اپنے بازوؤں سے سایہ کرتی رہی ہے ۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔
پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔

چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔

اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔

پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔

پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں

توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔

جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ”غابہ ”جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔

جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے

اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔

سبحان اللہ عز و جل ،،، یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،، آ مین ۔

(کرامات صحابہ ، ص؛ 168 تا 171 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی )

( منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)


Media Stats


1265

Posts

123

Albums

20

Mehfils

1122

Others

Follow Us


Subscribe Us



Loading